تحریر: ارسلان تارڑ
السلام علیکم!
آج میں آپ سے دل کی ایک سچی بات کرنا چاہتا ہوں۔ بات شاید کڑوی ہو، لیکن بہت ضروری ہے۔ یہ بات اُن والدین کے لیے ہے جو اپنے بچوں کے خوابوں کو اُس نظر سے نہیں دیکھتے، جس نظر سے اُنہیں آج کے دور کی ضرورت کے تحت دیکھا جانا چاہیے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک 18 سال کا نوجوان، جو کسی دیہی علاقے سے ہے، وہ اپنے دل میں کچھ بڑا کرنے کا خواب لے کر جیتا ہے۔ مگر اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے - لاعلمی، اور والدین کی وہ پرانی سوچ جو صرف جسمانی محنت کو ہی “اصل کام” سمجھتی ہے۔
دیکھیں ہم آج ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں دنیا دنوں میں بدلتی ہے۔ کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ اور اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) ہر فیلڈ میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اب جو بندہ ان چیزوں سے ناواقف رہا، وہ وقت کے ساتھ پیچھے رہ جائے گا۔ مگر یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے والدین، خاص طور پر وہ جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان ساری چیزوں کو نہ تو جانتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی ان پر یقین رکھتے ہیں۔
ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو کمپیوٹر سکلز سیکھنا چاہتے ہیں — جیسے گرافک ڈیزائننگ، ویب ڈیویلپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، AI، کوڈنگ، فری لانسنگ، یوٹیوب چینل بنانا، ایپ ڈیویلپمنٹ وغیرہ۔ یہ سب آج کے زمانے کے قیمتی ہنر ہیں۔ ہم صرف خواب نہیں دیکھتے، ہم ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، مفت کورسز ڈھونڈتے ہیں، یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، موبائل پر ایپس سے پریکٹس کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جب ہم والدین سے کہیں کہ ہمیں کمپیوٹر کورس کرنا ہے، یا کوئی آن لائن ہنر سیکھنا ہے، تو وہ فوراً کہہ دیتے ہیں:
"یہ سب فضول کام ہیں۔ اس سے کبھی کسی کو پیٹ بھرا ہے؟ جا بیٹا، کوئی کام کر، مزدوری کر، کچھ کما کے لا۔"
مگر کیا واقعی یہ ہنر فضول ہیں؟ کیا ان سے کوئی کامیاب نہیں ہوا؟ آئیے کچھ زندہ مثالیں دیکھتے ہیں:
دنیا بھر سے مشہور افراد جو ڈیجیٹل سکلز سے کامیاب ہوئے:
1. ایلون مسک – ٹیسلا، اسپیس ایکس، اور اوپن اے آئی جیسے منصوبوں کے بانی۔ کمپیوٹر سکلز اور AI کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔
2. مارک زکربرگ – فیس بک (اب میٹا) کے بانی، جنہوں نے کوڈنگ سے آغاز کیا۔
3. بل گیٹس – مائیکروسافٹ کے بانی، جنہوں نے سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سے دنیا بدل دی
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ آن لائن سکلز سیکھ کر اچھا خاصا کما رہے ہیں جن میں یوٹیوبرز فری لانسرز اور ڈیجیٹل مارکیٹرز شامل ہیں
اب والدین سے گزارش ہے کہ وہ ان مثالوں پر غور کریں۔ دنیا واقعی بدل چکی ہے۔ یہ صرف کتابی علم کا دور نہیں رہا، اب ہنر اور اسکلز ہی اصل طاقت ہیں۔ ہم والدین کی عزت کرتے ہیں، ان کی قربانیوں کو مانتے ہیں، مگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی سمجھیں۔ اگر ہم کسی سکل کو سیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں روکنے کے بجائے حوصلہ دیں
اب ایسے میں جب والدین نہیں مانتے تو بہت سے بچے بدتمیزی پر اتر اتے ہیں یا ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جن کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے۔
بچوں کو چاہیے کہ وہ والدین کو یوں قائل کریں:
1. ان سے بدتمیزی نہ کریں، ادب سے بات کریں۔
2. سیکھے گئے ہنر کا عملی مظاہرہ دکھائیں، مثلاً ڈیزائن، ویب سائٹ یا چھوٹا سا ویڈیو ایڈیٹ کرکے دکھائیں۔
3. ایسے لوگوں کی کہانیاں سنائیں جنہوں نے یہی ہنر سیکھ کر زندگی بدلی۔
4. چھوٹے چھوٹے فری پروجیکٹس کر کے والدین کو دکھائیں کہ اس سے کما بھی سکتے ہیں۔
5. اپنی کوشش اور محنت کو والدین کے سامنے واضح کریں، اعتماد حاصل کریں۔
والدین کے لیے پیغام:
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ آپ کا سہارا بنے، تو اُسے اس کی پسند کا راستہ بھی دیں۔ آج کی دنیا میں صرف جسمانی محنت نہیں، ذہنی صلاحیت اور ڈیجیٹل ہنر بھی پیٹ پالتے ہیں، بلکہ بہتر مستقبل بناتے ہیں۔ آپ کا بچہ اگر یوٹیوب دیکھ رہا ہے تو ہو سکتا ہے وہ کوئی کورس کر رہا ہو، وہ اگر موبائل پر وقت گزار رہا ہے تو ہو سکتا ہے وہ گرافک ڈیزائن سیکھ رہا ہو۔ ہر وقت کی شکایت اور ممانعت کی بجائے، کبھی اعتماد بھی کریں۔
آخری بات:
آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ دور AI اور ڈیجیٹل دنیا کا ہے۔ اگر ہم نے اسے سمجھا، سیکھا اور اپنایا، تو ہم ترقی کریں گے۔ اگر ہم نے اسے نظرانداز کیا، تو ہم صرف دوسروں کی ترقی دیکھتے رہ جائیں گے۔ والدین اور بچوں کے درمیان یہ سوچ کا فرق ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے، تبھی ہم ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکیں گے۔
یہ ایک سچے نوجوان کی آواز ہے۔ ہزاروں بچے یہی کہنا چاہتے ہیں، بس کوئی سنے۔
اپنے اس بھائی ارسلان تارڑ کو دعاؤں میں یاد رکھیے گا
والسلام
0 تبصرے