سوات کا سیلاب اور وسائل کی کمی | انسانی جانوں کا نقصان اور ریاستی نظام کی ناکامی

 

Swat Selab 2025 – logon ko pani mein phansa hua dikhata hua manzar

"سوات کا سیلاب اور وسائل کی کمی  : کب انسانی جان کھیل سے زیادہ اہم بنے گی؟"

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

✍️ تحریر:- ارسلان تارڑ

سوات کا حالیہ سانحہ – ایک آنکھیں کھول دینے والا واقعہ

27 جون 2025 کو خیبر پختونخواہ کے خوبصورت مگر حساس علاقے، وادیٔ سوات میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ ایک خاندان معمول کی طرح پکنک منانے کے لیے دریائے سوات کے کنارے آیا۔ اچانک بارشوں کے باعث سیلابی پانی نے شدت اختیار کی اور سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق لوگ گھنٹوں مدد کے انتظار میں پانی کے درمیان پھنسے رہے، چیختے چلاتے رہے لیکن کوئی ریسکیو ٹیم، کوئی ہیلی کاپٹر، کوئی فوری امداد ان تک نہ پہنچ سکی۔

کچھ ہی دیر بعد خبر سامنے آئی کہ اس واقعے میں کم از کم 9 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ دیگر لاپتہ ہو گئے۔ یہ حادثہ صرف چند افراد کی جانیں لینے تک محدود نہیں، بلکہ اس نے ہمارے پورے نظام، ہماری ریاستی ترجیحات، اور ہماری اجتماعی بے حسی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ خبر کا ماخذ – AP News

جب بات کھیل کی ہو تو ہیلی کاپٹر فوراً آ جاتا ہے!

جب پاکستان سپر لیگ (PSL) کے میچز میں بارش ہوتی ہے، تو گراؤنڈ کو خشک کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ میڈیا، انتظامیہ، اور سیکیورٹی ادارے سب متحرک ہو جاتے ہیں تاکہ میچ وقت پر شروع ہو۔ لاکھوں روپے صرف چند گھنٹوں کے کھیل کے لیے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن جب بات انسانی جان کی ہو؟ جب کوئی خاندان پانی میں ڈوب رہا ہو؟ تب وہی ادارے خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہیلی کاپٹر کہاں ہوتے ہیں؟ وسائل کیوں سو جاتے ہیں؟ کیا انسان کی زندگی ایک میچ سے بھی کم اہم ہو گئی ہے؟

ریسکیو ٹیموں کا کردار - حوصلہ افزائی بھی، تنقید بھی

یہ بات ضرور مانی جانی چاہیے کہ پاکستان میں ریسکیو 1122، پاک فوج، اور مقامی پولیس اکثر قدرتی آفات میں جان پر کھیل کر لوگوں کو بچاتے ہیں۔ کئی مواقع پر ریسکیو اہلکاروں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر متاثرہ افراد کو نکالا۔ سوات کے اس واقعے میں بھی، کچھ گھنٹوں بعد ریسکیو ٹیمیں حرکت میں آئیں، فوجی جوان بھی تعینات کیے گئے، اور مقامی افسران نے امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ ریسکیو آپریشن کی تفصیل – Anadolu Agency

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی تھا؟ کیا یہ بروقت تھا؟ اگر یہ ساری حرکت شروع سے ہو جاتی، تو کیا ہم اتنی قیمتی جانیں بچا نہ سکتے تھے؟

یہ ادارے ہمارے لیے امید کی کرن ضرور ہیں، لیکن ان کی اوویلیبلٹی، تربیت، اور وسائل کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں ان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ، وسائل فراہم کرنے، جدید ٹریننگ دینے، اور فوری رسپانس سسٹم قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جذبہ ہو تو بہت کچھ ممکن ہے، اور ہمارے ان اہلکاروں میں جذبہ ہے — بس ضرورت ہے وقت پر پہنچنے کی، اور سسٹم کے متحرک ہونے کی۔

حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

سوال یہ نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر سکتی تھی، اور کیا کرنی چاہیے۔ 

درج ذیل اقدامات فوری اور سنجیدگی سے اٹھائے جانے چاہئیں:

ریسکیو ہیلی کاپٹرز کی دستیابی ہر ڈویژن میں یقینی بنائی جائے تاکہ دور دراز علاقوں میں فوری پہنچا جا سکے۔

•سیلاب وارننگ سسٹم کو جدید بنایا جائے تاکہ خطرے کی صورت میں مقامی افراد کو فوراً اطلاع دی جا سکے۔

•سیاحتی مقامات پر خطرناک علاقوں کی نشاندہی کی جائے اور وہاں جانے پر پابندی یا گائیڈ مہیا کیے جائیں۔

•عوامی تربیت پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ لوگ جانیں کہ ایسی ہنگامی صورتحال میں کیا کرنا ہے۔

•ریسکیو ٹیموں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے مکمل خود مختار ادارہ بنایا جائے تاکہ وہ ہر وقت تیار ہوں، اور انہیں فنڈز یا اجازت کی راہ نہ دیکھنی پڑے۔

ہماری اجتماعی ذمہ داری – ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہم لوگ اکثر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو بعض اوقات بالکل درست ہوتا ہے، لیکن ہمیں اپنے رویوں پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔

جب سوشل میڈیا پر کوئی خطرناک مقام کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے، ہم اسے آگے شیئر کرتے ہیں، متاثرہ افراد کو ‘بےوقوف’ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ اگر ہمارے عزیز بھی اس پانی میں ہوتے، تو ہم کیا کرتے؟

نوجوان نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایڈونچر اور لاپرواہی میں فرق ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی ویوز اور لائکس کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا کسی عقلمندی کی علامت نہیں۔

نوجوانوں کے لیے چند تجاویز:

•خطرناک علاقوں میں جانے سے پرہیز کریں، خاص طور پر بارش کے دنوں میں۔

•اگر کسی ایمرجنسی کا سامنا ہو تو فوری 1122 یا مقامی حکام سے رابطہ کریں۔

•ریسکیو ٹیموں کو بلاک نہ کریں، ان کے ساتھ تعاون کریں۔

•سوشل میڈیا پر شعور پھیلائیں نہ کہ سنسنی۔

اختتامی پیغام – ارسلان تارڑ کی آواز ہے
میں بطور ایک نوجوان، اس قوم کا حصہ، یہ سمجھتا ہوں کہ تبدیلی صرف حکومتی ایوانوں سے نہیں آتی، بلکہ ہم جیسے عام لوگوں کی بیداری سے آتی ہے۔ سوات کے اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟

کیا ہم صرف کھیل، شہرت اور پروٹوکول کے لیے ہیلی کاپٹرز اڑاتے رہیں گے؟ کیا ہم ہر بار صرف دعا پر انحصار کریں گے؟ یا اب ہم بحیثیت قوم، بحیثیت نوجوان، کچھ حقیقی، عملی اقدامات کریں گے؟

یہ وقت ہے جاگنے کا، یہ وقت ہے آواز اٹھانے کا۔ کیونکہ اگر آج ہم نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں، تو کل ہم خود اسی پانی میں پکار رہے ہوں گے اور شاید کوئی نہ سنے۔

واسلام

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے